✒️ شعر:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈوب کے جویا ہوں تو ساحل بھی خدا ہوتا
📖 تفسیر (اردو میں):
یہ شعر علامہ اقبال کی گہری فکری اور روحانی دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صرف الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ ایک کامل صوفیانہ تجربہ ہے جو “خدا کی تلاش” اور “خود کی نفی” کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔
🔹 پہلا مصرع:
“نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا”
یہاں اقبال وجود کے آغاز کی بات کرتے ہیں۔ جب کچھ بھی نہ تھا، یعنی کائنات، انسان، وقت، مادّہ — سب کچھ عدم میں تھا —
تب بھی خدا موجود تھا۔ کیونکہ خدا کا وجود کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے کا محتاج نہیں۔
اگر “کچھ نہ ہوتا” تو بھی خدا ہوتا —
یعنی خدا کا ہونا ازلی و ابدی ہے۔
نہ وہ کسی شے سے پیدا ہوا، نہ کسی کے ختم ہونے سے فنا ہوگا۔
🔹 دوسرا مصرع:
“ڈوب کے جویا ہوں تو ساحل بھی خدا ہوتا”
اقبال یہاں ایک عظیم نکتہ پیش کرتے ہیں —
جب انسان اپنے نفس، خواہشات اور خودی میں ڈوب کر خدا کی تلاش کرتا ہے،
تو وہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ جہاں سے نجات (ساحل) کی امید ہوتی ہے — وہی بھی خدا کا عکس بن جاتا ہے۔
ڈوبنا یہاں صرف پانی میں نہیں، بلکہ روحانی سفر میں گہرائی میں جانے کا استعارہ ہے۔
جو شخص سچائی کی تلاش میں اپنی ذات سے گزر جائے —
اس کے لیے ہر سمت میں، ہر حالت میں، ہر کیفیت میں “خدا ہی خدا” نظر آتا ہے۔
🌌 نتیجہ:
یہ شعر عشقِ حقیقی، صوفیانہ وحدت الوجود اور فنا فی اللہ کی مکمل جھلک ہے۔
اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ خدا صرف مسجد، آسمان یا کتاب میں نہیں —
بلکہ وہ عدم میں بھی ہے، وجود میں بھی ہے، ساحل میں بھی ہے، سمندر میں بھی۔